نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

متصف

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

  م ائیں بیٹیاں جنتی ہیں،  باپ انہیں سر پر بٹھا کر رکھتے ہیں کہ کسی کی بری نظر ان کے  آنگن  کے مہکتے پھولوں کو کملانے پر مجبور نہ کر دے۔ دور بدلا نہیں ہے ، عورت کے نصیب کی کایا  ابھی پلٹی   نہیں  ہے  کہ ابھی تو اس کی آنکھ کھلنا شروع ہوئی ہے۔ جو اپنے سب حقوق سے واقف ہو، مرد  سے ہر میدان میں آگے ہو، جو زندگی کو وجود دیتی ہو، گھر میں  کام والی  ماسی ہو اور تب بھی پوری د نیا  اسے اس کے کام سے پہچانتی ہو، اس  پہ زدوکوب بدنصیبی کی انتہا بھی ہے اور مجھ سمیت معاشرے کے ہر فرد کے ہاتھ سے نکلا ہوا تیر بھی۔ جو شاہدہ کی کہانی ہے وہ تم نے کربلا میں سنی  ہوگی یا شاید نہ سنی ہو کہ وہاں تو مٹھی بھر سرفروش نکلے تھے، کلمہ حق بلند کرتے ہوئے مارے گئے، کوئی عورت مری؟ خیمے میں گھس کر ماری گئی؟  نیند میں بے بس کر دی گئی؟    خاندان کے سب مردواقعہ سے   لاتعلق   ہوگئے ؟  ہم عورتیں! تم سب ہمارے پیٹوں میں رہے ہو۔ ہم نے تمہاری خاطر اپنی چاہتیں قربان کی ہیں۔ ہم نے تمہارے واسطے جسمانی   و  ذہنی تکلیفوں کے وہ انبار سہے ہیں کہ تم پر گر جاتے تو    یہ جو تمہارا   غرور ہے نا  اس کے ساتھ ساتھ تمہاری نس نس بھی  پاش پاش  ہو

تازہ ترین پوسٹس

لب پہ لیکن کوئی فریاد نہیں

نظم (کالج سے گریجوایٹ ہوتے ہوئے )

تیرے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

یہ اہتمام , یہ جشنِ گمانِ آزادی

ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے

میرا پتا وہی تھا, میرا وہی مکاں تھا

میرا دل تیرا استعارہ ہے