تیرے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

حُسن کا عشق کی آتش کو لگانا کیا ہے؟ 

عشق کا حسن پہ  ہی  جان لُٹانا کیا ہے ؟

 

تیری بے باکی سے واقف ہے جہاں سارا ، پھر

سامنے یوں مرے چلمن کو گرانا کیا ہے؟

 

میرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے اگر

مرے قاتل ! یہ ترا تیغ اُٹھانا کیا ہے؟

 

زندگی غیر کے پہلو میں  بسر کر دی اور

نغمۂ وصل ہمیں روز سنانا کیا ہے؟

 

تیرے وعدے ہی پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم

تیرے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

 

‏اکتوبر   2016











تبصرے

مشہور اشاعتیں