لب پہ لیکن کوئی فریاد نہیں

 حال کچھ ایسا بھی برباد نہیں

گوشئہ دل ہی تو آباد نہیں

 

آ گئے یاد مہربان مرے

آئی کیوں یاد، یہ بھی یاد نہیں

 

عاشقی صبر طلب کام رہا

ہم بھی تھے قیس یا فرہاد نہیں

 

تیرا بیمار مگر جیتا رہا

زندگی گزری مگر شاد نہیں

 

بہتا ہے آنکھ سے اک سیل رواں

لب پہ لیکن کوئی فریاد نہیں

 

جیتے ہیں آرزو میں جینے کی، پر

آرزو کی کوئی میعاد نہیں

 

جون 2020

 



تبصرے

مشہور اشاعتیں