میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

 مائیں بیٹیاں جنتی ہیں،  باپ انہیں سر پر بٹھا کر رکھتے ہیں کہ کسی کی بری نظر ان کے  آنگن  کے مہکتے پھولوں کو کملانے پر مجبور نہ کر دے۔ دور بدلا نہیں ہے ، عورت کے نصیب کی کایا  ابھی پلٹی   نہیں  ہے  کہ ابھی تو اس کی آنکھ کھلنا شروع ہوئی ہے۔ جو اپنے سب حقوق سے واقف ہو، مرد  سے ہر میدان میں آگے ہو، جو زندگی کو وجود دیتی ہو، گھر میں  کام والی  ماسی ہو اور تب بھی پوری د نیا  اسے اس کے کام سے پہچانتی ہو، اس  پہ زدوکوب بدنصیبی کی انتہا بھی ہے اور مجھ سمیت معاشرے کے ہر فرد کے ہاتھ سے نکلا ہوا تیر بھی۔ جو شاہدہ کی کہانی ہے وہ تم نے کربلا میں سنی  ہوگی یا شاید نہ سنی ہو کہ وہاں تو مٹھی بھر سرفروش نکلے تھے، کلمہ حق بلند کرتے ہوئے مارے گئے، کوئی عورت مری؟ خیمے میں گھس کر ماری گئی؟  نیند میں بے بس کر دی گئی؟    خاندان کے سب مردواقعہ سے  لاتعلق  ہوگئے؟ 

ہم عورتیں! تم سب ہمارے پیٹوں میں رہے ہو۔ ہم نے تمہاری خاطر اپنی چاہتیں قربان کی ہیں۔ ہم نے تمہارے واسطے جسمانی   و  ذہنی تکلیفوں کے وہ انبار سہے ہیں کہ تم پر گر جاتے تو    یہ جو تمہارا   غرور ہے نا  اس کے ساتھ ساتھ تمہاری نس نس بھی  پاش پاش  ہو جاتی۔ ہم صنف نازک کہلاتے ہیں کیونکہ تم کو یہ کہنا پسند ہے، وگرنہ جس وجود میں زندگی پھلتی پھولتی ہو اور اسے نزع کے  عالم کی سی  تکلیف دے کر پھوٹ نکلتی  ہو،  تم سمجھتے ہو کہ وہ صنف آہن سے کسی طور کم ہے؟ ہم نے زندگی کے بڑے بڑے  موقعوں پر تمہارے مان رکھے ہیں ، اپنی پسندیدہ چیزیں تمہاری خاطر قربان کی ہیں ۔  چونکہ تم مرد ہو!  تم جس روپ میں بھی ہو، قانون تم بناتے ہو (جنگل کا)، بادشاہت تم کرتے  ہو (اس جنگل میں)،ہم میں سے ہر کوئی تمہیں بچا بچا کر چلتا ہے، پھر بھی کچل دیا جاتا ہے!

شاہدہ،  میرے باپ کی ماں جائی تھی۔  میرے نزدیک بچپن سے ایک آئیڈیل انسان کی جو شبیہہ ہے وہ اس شخص کی ہےجس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہتے ہوں، جو اپنی ذات کی کمیوں کا نشانہ اپنے اردگرد کے انسانوں کو بنانے کی بجائے اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے پر محنت کرتا ہوا نظر آتا ہو۔   ان میں ایک مرد شامل تھا ، میرا نانا۔ ایک عورت بھی شامل تھی، شاہدہ۔ میں نے ان کو کبھی کسی کو تکلیف دیتے نہ دیکھا نہ سنا ۔ ان کی زندگیاں تکلیفوں کا پہاڑ تھیں مگران کے لبوں کی مسکراہٹ ہمیشہ گہری ہوا کرتی تھی۔ میں جو مسکرانا بھول جاتی تھی-ان کو یاد کرتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ   نانا کو بڑھاپے نے آ لیا اور شاہدہ کو مردود مردوں نے۔ جن کو اپنی مردانگیی ثابت کرنے کا دوجا کوئی طریقہ نہ ملا تواپنے ننھے بچوں کے پاس سوئی ہوئی اکیلی عورت پر حالت نیند میں وار کر دیا اور گردن پر چھری پھیر دی۔  ایسا ذبیحہ تم نے کہیں دیکھا ہے؟ ہاں! قربان گاہ میں تو دیکھا ہوگا۔ ایک عورت کے سہاگ کا کمرہ اس کی قربان گاہ بنا ڈالا، مگر جانوروں والی چھری استعمال کرنے سے کوئی نہ چوکا۔

 ہائے! کیسے تڑپی ہوگی وہ، ماں کو بلایا تو ہوگا ، یا خدا جانے خدا سےبھی کہا ہو کہ ساری عمر تجھے پکارا ہے آج تو زمین پر اتر جا کہ میری ان  زمینی خداوں سے جان چھوٹ جائے۔ ہاں، کچھ ایسے زمینی خدا بھی ہیں جنہیں ابھی بھی  اپنی مردانگی پر شک ہے، جس دن سے شاہدہ نے آنکھیں میٹی ہیں اس دن  سےپوری تگ و دو کے ساتھ کیس پر مٹی ڈالنے میں مصروف ہیں۔ جرم قبول نہیں کرتے، معافی کے خواستگار ضرور ہیں! جب تم نے جرم قبول ہی  نہ کیا توتمہارے لیے معافی کیسی؟  تم کہتے ہو کہ تم جانتے کچھ نہیں، ہاں مگرخودکشی کو تو خوب  خوب جانتے ہو۔  تاریخ کی ایک عورت ضرور دکھانا  جس نے اپنے ہاتھ سے اپنا گلہ کاٹا ہو اور کاٹنے سے پہلے گھونٹا ہو اور آلہ قتل اس ہاتھ میں پکڑا ہو جو ہاتھ اس کا کمزور  تھا۔  خدا تمہاری عورتوں پر یہ دن نہ لائے کہ ہم تم جیسے نہیں جو عورتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔  اے ایک خدا کی عبادت کرنے والو! تم نے یزیدیوں کو بھی مات دے دی۔ فرعون بھی تم سے شرماتا ہے کہ  اس  نے بھی عورتوں کو زندہ رکھا تھا اور مردوں کو مارنے کا حکم دیا  تھا، تم ایسا 'بہادر'  جو نہ تھا۔

خدا نے تمہیں فوقیت بخشی تھی کہ تم انسان تو ہو گے، مگر تم تو جانور نکلے۔ جانوروں کی حضرت انسان پر کوئی فوقیت نہیں۔ انسان اور حیوان کا فرق یہی ہے کہ جو صلاحیتیں اسے ملیں انہیں کہاں صرف کرتا ہے ۔ جو عقل اسے دی گئی اسے کام میں لاتا ہے یا  باہر کھونٹی پر ٹانگ کر گھر میں داخل  ہوتا ہے۔ حضرت زینب کی بد دعا کے گواہو!  تم اور تمہاری روز قیامت تک آنے والی نسلیں ادھڑی ہوئی چمڑی اور جسمانی و ذہنی تکلیفوں کے ساتھ زندگی بسر کریں، خدا تمہارے آنسو کبھی خشک نہ کرے اور آخرت میں کھولتا ہوا لاوا تمہارا مقدر بنے، تا ابد بنتا رہے۔  تمہارے پاس جتنا زور ہے لگا  کر دیکھ لو، میں اپنے خدا سے نہ اس دنیا میں نا امید ہوں اور نہ آخرت پر میرا ایمان ذرہ  برابرکم ہے۔  تمہارے ساتھ خدا تمہارے حواریوں کو بھی غرق کرے ۔ ہر وہ شخص  جو بھول چکا ہے کہ عورت سب سے پہلے انسان تھی اور اب بھی اسے انسان ہونا چاہیے تھا،مگر وہ تمہاری عزت، جاگیر اور غیرت بن کر رہ گئی۔ خدا مجھے، میری نسلوں کو اور ہر خواہشمند عورت کو ایسے بے حس انسانوں سے دور رکھے اور جو خود وہیں جانا چاہیں تو جاتی پھریں۔



تبصرے

Unknown نے کہا…
Such heart wrenching incident and app ny usy jesy byan kia dil.khoon k anso rou 😭😭😭😭😭para

مشہور اشاعتیں