نظم (کالج سے گریجوایٹ ہوتے ہوئے )


سُرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئے ہیں تحریر

تختئ وقت پہ جاں سوز مناظر بن کر

 

پھر وہی صبح کہ لائی ہے پیامِ ہجرت

اب کے جینا ہے ہمیں تیرے مہاجر بن کر

 

تُجھ کو چھوڑا تو ترا شہر بھی ہم چھوڑ چلے

تیرے دامن کے سِوا شہر میں رکھا کیا ہے؟

 

تیرے دم سے ہے یہاں مے کدۂِ علم  آباد

جس نے پی ہی نہیں اُس نے بھلا چکّھا کیا ہے؟

 

تُو نے دیکھا ہے مِری آنکھ کا بہتا پانی

قہقہے جذب ہیں میرے تری دیواروں میں

 

میں وہ گُل ہوں جو تری مٹّی میں پروان چڑھا

پُھول مُجھ سا نہ مِلے گا تُجھے گُلزاروں میں

 

خاک مکتب تو مجھے سارے جہاں سے ہے عزیز

تجھ کو ہی چھان کے پایا جو میں نے پایا ہے

 

تیری ہر اینٹ میں شامل ہیں مرے بھی ذرّات

میری پُونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے

 

اپریل 2017




تبصرے

مشہور اشاعتیں